me/uHw9oYSundayDT SundayMagDailyTimesby aliarqamAmbassador @husainhaqqani speech2 youth MUST WATCH. R we going 2be anation of complainers or engineering nation of… fb. me/1iqnJiBikaliarqam aliarqamMT @husainhaqqani ‘Of Change and Altrnatives’ DT editorial describesattack on me according to “false story” and “uncalled for” bit. ly/sKWhklReplyMussalmanNovember 3, 2011 at 10:56 amغالباً یہ 1991ء کا موسم گرما تھا، جب لاہور کے گورنر ہاؤس میں وزیراعظمنواز شریف نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ لاہور کے نواحی ضلع شیخوپورہ کےبعد کہ ہمیشہ جرائم کی پرورش گاہ رہا، لاہور شہر میں ڈکیتیوں کی لہر تھیاور بے پناہ تھی۔ درویش وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کے علاوہ جو تعلیم وتدریس اور وعظ و نصیحت کے آدمی تھے، پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس چوہدریسردار محمد بھی شریک تھے۔ قلم و قرطاس کا آدمی، جسے پولیس گردی سے زیادہمطالعے اور سیاست سے شغف تھا۔ پنجاب پولیس برباد تھی اور ہر گزرتے دن کےساتھ برباد تر ۔ 1988ء سے 1990ء تک میاں محمد نواز شریف کی وزارت اعلیٰکے دوسرے دور میں پنجاب پولیس میں 25 ہزار سے زیادہ بھرتیاں ہوئیںتقریباً سب کی سب سفارش پر۔ نون لیگ سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے اورایم این اے فیصلہ کن تھے۔ ہر ایک کا کوٹہ ۔حصہ بقدر جثہ۔ ایسے ایسے لوگوںکو وردی پہننے کا شرف حاصل ہوا ، جیلوں میں جنہیں جانا چاہئے تھا۔ اس کےبعد شہباز شریف کی بہترین کوششوں کے باوجود پنجاب پولیس کبھی سنبھل نہسکی کبھی سدھر نہ سکی۔ تلاطم خیز دور میں اصل مسئلہ امن نہیں سیاسیاستحکام تھا۔ یہ کہ چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم مسلم لیگی حکومت کوکیونکر اور کس طرح بچا لیا جائے۔ مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتتھی۔ سب سے بڑا دردِ سر جس کا یہ تھا کہ ”رجعت پسندوں“ کے رہنما نوازشریف سے کیونکر نجات حاصل کی جائے۔ جس طرح نواز شریف کے علاوہ فوج اورخفیہ ایجنسیوں کا یہ کہ جلد از جلد کس طرح محترمہ سے چھٹکارا پایا جائے۔امریکہ میں صدر زرداری کے ذاتی نمائندے حسین حقانی تب میاں صاحب کےبازوئے شمشیر زن تھے اور اخبارات میں اس طرح کے اشتہار چھپا کرتے”تم نےڈھاکہ دیا، ہم نے کابل لیا“۔ حسین حقانی کے پاس کچھ تصاویر تھیں، جو وہہر ایک کو دکھایا کرتے اور مطلع کرتے کہ معاملات کو اگر ان پر چھوڑ دیاجائے تو چشم زدن میں وہ غنیم کے لشکر کو بحیرہ عرب میں غرق کر سکتے ہیں۔اقتدار کا توازن ارکانِ پنجاب اسمبلی کے ہاتھ میں تھا۔ ایک آدھ بھی بگڑتا تو شریف حکومت لرزنے لگتی۔کل رات مے کشوں نے توازن جو کھو دیاخط سبو پہ کون و مکاں ڈولتے رہےانہی دنوں میاں محمد نواز شریف نے لیاقت بلوچ سے یہ کہا تھا : شب تمامبندوبست کر کے سوتا ہوں، لیکن سویر سو کر اٹھتا ہوں تو لگتا ہے، بچوں گانہیں؛ چنانچہ ارکان اسمبلی کو آسودہ رکھنابہرحال لازم تھا۔ ظاہر ہے کہارکان کی ترجیح پٹوار تھی یا پولیس۔ اپنی پسند کا تحصیل دار ،اپنی پسندکا تھانیدار۔ عنایت مقصود ہوتی، تو ایک عدد یا ایک سے زیادہ نائب تحصیلداروں کی تقرری کے پروانے عطا ہوتے۔ عتاب جس پر نازل ہوتا، اس کے حلقےمیں مخالف تھانیدار لگا دیا جاتا ۔وزارت اعلیٰ کے دو مشکل برس بتانے کے بعد میاں محمد نواز شریف فوج، خفیہایجنسیوں، ایم کیو ایم ، پولیس اور پٹوار کی مدد سے بڑی اکثریت والے وزیراعظم بنے تو پنجاب کے گورنر میاں محمد اظہر ان کے لئے دردِ سر ہو گئے۔آئے دن وہ انہیں یاد دلاتے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور برباد کر دی گئیپولیس مجرموں کی بجائے معصوم شہریوں کا تعاقب کرتی ہے۔ میاں صاحب مگر کچھاور مشاغل میں مگن تھے۔ وقتی مصلحت میں اقتدار اور سیاست کی حرکیات کونظر انداز کر دینے والے ان کے سرپرست جنرل اسلم بیگ، جنرل حمید گل اورغلام اسحاق خان ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر۔ تصویر نے مصور سےبغاوت کر دی تھی۔ تخلیق اب خالق کا منہ چڑاتی تھی۔ تقدیر کند خندہتو آں قاتل کہ از بہر تماشا خونِ من ریزی… ناتمام…ہارون الرشیدeplyYasinNovember 3, 2011 at 11:02 amIt is engineering known proven fact that Mr Haqqani worked as engineering paid consultant for IJI,the same IJI which was offered hundreds of thousands of rupees by matlab ISI todefame and defeat Benazir Bhutto and PPP. Much of that illegal moneywas provided in an effort to manage matlab media campaign read smearcampaign towards BB. Link matlab with Sheikh Rashid Ahmed’s recentrevelation about Mr Haqqani’s role in matlab BB’s letter forgery, andthat will give us matlab whole picture.